رائے پور، 10؍جون(آئی این ایس انڈیا )چھتیس گڑھ میں جہاں اسمبلی انتخابات صرف دو سال دور ہے وہاں سابق وزیر اعلی اجیت جوگی نے ایک نئی پارٹی قائم کر کے نہ صرف لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے ،بلکہ ساتھ ہی ان کے اس فیصلے نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی کے لیڈروں کو سیاسی نفع و نقصان کو لے کر غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات میں اجیت جوگی کی اس سیاست چال کا انہیں کتنا فائدہ ملے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس سے دہلی سے لے کر چھتیس گڑھ تک کی سیاست میں ہلچل مچ گئی ہے۔جوگی کا کہنا ہے کہ انہیں یہ نئی پارٹی قائم کرنے کے لیے اس وجہ سے مجبور ہونا پڑا کیونکہ انہیں محسوس ہوا کہ ریاستی کانگریس میں رمن سنگھ حکومت کو ریاست سے باہر کا راستہ دکھانے کی بالکل صلاحیت نہیں ہے۔جوگی نے کہا کہ ایسا لگا کہ ریاست کی اہم اپوزیشن کانگریس بی جے پی حکومت کی بدانتظامیہ کے خلاف لڑنے کے بجائے اس کی مددگار کے کردار میں آ گئی ہے جبکہ ریاست کو ایک مضبوط اپوزیشن کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ میرے حامی اور خیر خواہ چاہتے تھے کہ میں اس بدعنوان حکومت سے ریاست کو نجات دلانے کے لیے کوئی ٹھوس فیصلہ لوں۔آئندہ اسمبلی انتخابات میں حکمران بی جے پی کو حکومت مخالف لہر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اس کے علاوہ اس کی کانگریس کی مضبوط ٹکر کا اور جوگی کی نو تشکیل شدہ پارٹی کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ریاست کی ستنامی درج فہرست ذات کمیونٹی اور ریاست کی کل آبادی کا تقریبا پچاس فیصد قبائلی برادری پر جوگی کا کافی اثر ہے۔اس لیے مانا جا رہا ہے کہ وہ اس علاقے میں بی جے پی اور کانگریس دونوں کے امکانات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔اگر جوگی درج فہرست کمیونٹی کے رائے دہندگان کی حمایت اپنی طرف کھینچ سکے تو اس سے بی جے پی کو نقصان ہوگا جس کے پاس اس وقت اسمبلی کی 10 محفوظ نشستوں میں سے 9 نشستیں ہیں، تاہم دونوں اہم پارٹیوں کے لیڈران جوگی کو اپنے لیے چیلنج نہیں مانتے اور اس کے برعکس ان کا خیال ہے کہ جوگی کے مقابلہ میں رہنے کا فائدہ انہیں ملے گا۔
ادھر، بی جے پی کے ریاستی سربراہ دھرملال کوشک کہتے ہیں کہ جوگی کے کانگریس سے الگ ہونے سے اہم اپوزیشن کانگریس کا ووٹ بینک تقسیم ہوگا اور اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا،لہذا یہ کہنا کہ بی جے پی انہیں لے کر فکر مند ہے صحیح نہیں ہے۔وہیں کانگریس کے ریاستی صدر بھوپیش بگھیل کہتے ہیں کہ ریاست میں اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی جوگی کی شبیہ کا فائدہ لیتی آئی ہے اور انہیں لگتا ہے کہ اسے اب بھی جوگی کی اس نئی پارٹی کا فائدہ ملے گا۔بگھیل نے کہا کہ بی جے پی گزشتہ انتخابات میں ہمیشہ جوگی کی منفی شبیہ کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔اب جب کہ جوگی کانگریس سے باہر ہیں، پارٹی کو اس کا فائدہ ملے گا۔جوگی نے پیر کو ایک نئی پارٹی کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔اس سے پہلے انہوں نے کانگریس پر یہ الزام لگا کر کی وہ ریاست میں بی جے پی کی’ بی‘ٹیم کی طرح کام کر رہی ہے بغاوت کا جھنڈا بلند کر دیا تھا۔کانگریس نے 2000میں مدھیہ پردیش کی تقسیم کے بعد بیو روکریٹ سے سیاستدان بنے جوگی کو نو تشکیل شدہ چھتیس گڑھ ریاست کا پہلے وزیر اعلی بنا کر لوگوں کو چونکا دیا تھا۔ریاست میں اس دوران قدآور لیڈر سابق مرکزی وزیر ودیا چرن شکلا اور ان کے چاہنے والوں کو امید تھی کہ کانگریس اس نئی ریاست کے پہلے وزیر اعلی کے طور پر شکلا کی ہی تاجپوشی کرے گی،لیکن ہوا وہی جو کانگریس ہائی کمان نے چاہا اور جوگی چھتیس گڑھ کے پہلے وزیر اعلی بن گئے۔اس کے بعد سے لے کر اب تک جوگی اپنے سیاسی مخالفین کو اپنی چالوں اور فیصلوں سے چونکا ہی رہے ہیں۔لیکن جب 2003کے انتخابات میں ریاست میں بی جے پی نے کانگریس کو شکست دی تو کانگریس کی شکست کا ٹھیکرا جوگی کے سر پر ہی پھوڑا گیا اور جوگی کی شبیہ کو اس شکست کا سبب مانا گیا۔اس کے بعد ریاست میں مسلسل تین بار بی جے پی کی حکومت بنی اور جوگی آہستہ آہستہ حاشیہ پر چلے گئے۔نتیجہ یہ ہوا کہ ریاست میں خیموں میں منقسم کانگریس کے تمام خیمے جوگی کے خلاف ہو گئے اور کانگریس بھون اور ساگون بنگلہ کے درمیان خلیج گہری ہوتی چلی گئی۔بالآخر ایک وقت سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قریبی مانے جانے والے اجیت جوگی نے ریاست میں نئی پارٹی بنا کر اس پارٹی کے لیے چیلنج کھڑا کر دیا جس کے لیے انہوں نے انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کی ملازمت چھوڑی تھی۔